کالر کا استعمال مہلک خطراک کا پیش خیمہ
اس میں شک نہیں کہ تہذیب جدید بعض خوبیوں کی حامل و سرمایہ دار تو ضرور ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکا کہ اس کے عیوب اس کے محاسن سے زیادہ اور کہیں زیادہ ہیں۔ پھر کیا بد بختی ہے کہ سر زمین پاک کے بسنے والے ان خوبیوں کے اختیار کرنے سے تو پہلوتہی اور کنارہ کشی سے کام لیتے ہیں لیکن تہذیب جدید کی تمام برائیاں تمام خرابیاں تمام عیوب اور تمام نقائش ان کے اندر گھر کرتے جاتے ہیں ملک کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈالئے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو سکتی ہے کہ اس وقت سارا ملک تفرت پرستی کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ فیشن پرستی کی وبا عام ہو رہی ہے۔ پرانے طور طریقے رخصت ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ نئی باتیں جگہ لے رہی ہیں اور خاص طور پر ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ تو ان باتوں میں پیش پیش ہے۔ ایک الباس کو ہی لیجئے تو اس میں بھی سو طرح کے فیشن نکال لئے گئے ہیں۔ اگر احادیث و سنت نبوی کو دیکھا جائے تو یہ بات وا ضح ہے کہ سنت کے مطابق لباس میں جہاں دین فوائد و محاسن ہیں وہاں دنیوی فوائنر کثیر تعداد میں ہیں سنت کے مطاق لباس میں جہاں دینی فوئدومحاسن ہیں وہاں دنیوی فوائد کثیر تعداد میں ہیں سنت کے مطابق لباس میں کالر کا استعمال ممنوع ہے لیکن جدی تہذیب نے کالر اور ٹائی کا استمال کر کے اپنے آپ کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ کالر یا ٹائی کی بندش سے مندرجہ زیل بیماریاں وقوع پذیر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
غده درقیہ کانقص
شده در گردن میں اگلی طرف ابھار سا ہوتا ہے جو جسم کے مختلف نظاموں کی تعمیر ترقی میں حصہ لیتا ہے اسی غدہ کے نام سے آدمی کے قد میں اور نشوونما میں فرق پر جاتا ہے تو جب تک کالر میں گردن کو ادھر ادھر حرکت دی جائے تو غدہ درقیہ پر رگڑ پہنچنے سے جسم انسانی نشانی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
دماغ کے تغزیے میں کمی
ہمارے دل سے خون دماغ کو شہ وگ کے ذریعے سپلائی ہوتا ہے۔ جب کالر کیبارش شہ رگ پر پڑتی ہے تو اس سے دماغ کو مسلسل کم خون سپلائی ہوتا ہے جس کی وجہ سے دماغ کی کمزوری، ضعف بصارت بے خوابی بالوں کا گرنا اور گنجا پن وغیرہ حتی کہ بعض حالات میں مسلسل شہ رگ کے گھٹنے کی وجہ سے موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اگر دماغی محنت کرنے والے اشخاص کالر کا استعمال ترک نہ کریں تو دماغ سے مسلسل کام لینے کی وجہ سے دماغ کی صلاحیتوں میں نقص واقع ہوتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ ضعف
دماغ کا مریض کالر کے استعمال سے پاگل پن کا شکار نہ ہو جائے۔
عمل تنفس کی رکاوٹ
ہمارے جسم میں پھیپھڑے خون سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکالنے اور آکسیجن داخل کرنے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کالر کے استعمال سے عمل تنفس میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے یہ ٹھیک ہے کہ آدی اس بات کو محسوس نہیں کرتا کیونکہ عضلات گردن کالز کی بندش اور رگڑ کے عادی بن جاتے ہیں اور اگر کسی نے آدی کو بند کالر کی صدری جیکٹ، شیروانی میں یا ٹائی استعمال کرائی جائے تو وہ اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس کرے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مذکورہ چیزیں قابل استعمال نہیں بلکہ ان کو استعمال کرتے وقت کالر کی بندش کا خاص خیال رکھا جائے اس کے علاوه بند کالر سے گردن کی حرکت درست طریق سے نہیں ہو پاتی۔ مذکورہ خطرات کو مغرب نے محسوس کیا اس ضمن میں برطانیہ میں ۱۹۳۰ء میں ایک
جماعت موجودہ لباس میں اصلاح کی غرض سے قائم ہوئی ہے جسے مینز ڈرلیں ریفارم پارٹی کا نام دیا گیا اس جماعت نے سب سے پہلے کالر کے استعمال کے خلاف جہاد کا آغاز کیا اور اس بارے میں ڈاکٹروں سے استفساکیاجن کا متفقہ فتوی یہ ہے کہ تنگ کالر کا استعمال فورا ترک کر دینا از بس ضروری ہے چنانچہ لندن کے ڈاکٹروں نے اس بارے میں ذیلی میل کے ایک نامہ نگار کو جو بیان دیا وہ مندرجہ ذیل ہے : ، ڈاکٹر الفرڈ - سی جارڈن آنریری سیکر ٹری «مینز ڈریس ریفارمپارٹی نے کہا ہے کہ گنج کی شکایت عورتوں کی بہ نسبت مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہے اور یہ امراب تقریبا پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ مردوں میں کالر اور تخت ٹوپی کا استعمال اس شکایت کا موجب ہوتاہے۔ وہ یہ ہے کہ خون أن خلیات تک نہیں پہنچ سکتا جہاں سے بال اگتے ہیں۔ علاوہ ازیں کالر کے استمال سے کام کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ سر ڈبلیو آریو بات کہتے ہیں کہ نیک کالر کا استعمال سر اور خصوصا دماغ سے خون کی وایی میں مزام ہوتا ہے۔ یہاں خون کی رگیں بہت پتلی ہوتی ہیں اور ان پر زیادہ دباؤ کی صورت میں ان کے پھٹ جانے کا قوی احتمال ہوتا ہے اور گھنے کی حالت میں تو یہ خطره
اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ لندن کے ایک اور ڈاکٹر ڈبلیو سیلیبن کی رائے ہے کہ کالز کا استعمال سانس کی آمد و رفت میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے۔ ہوا جب کاربن لے کر باہر خارج ہونا چاہتی ہے تو کالر کی بندش اس کی راہ بند کر دی ہے اور یہ غلیظ ہوا تمام جسم کو گرم اور خون کو کثیف کر کے مسامات کو بند کر دیتی ہے۔
علاوہ ازیں یہ امر مسلم ہے کہ غده ترمیہ بلوغت سے پہلے جسمانی نشوونما کا زریہ ہے لیکن کالر پینے کی صورت میں جب یہ غدا ہوا اور دھوپ سے پوشیدہ رہتا ہے تو جسمانی نشوونما پر اس کا بہت اثر ہوتا ہے اور یہ امر بچوں میں زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر کالر کے استعال کا رواج نہ ہوتا تو موجودہ نسل کے آدمیوں کے قد و قامت میں نمایاں فرق ہوتا اور وہ زیادہ مضبوط اور زیادہ قد آور ہوتے۔ آخر میں ایک واقعہ عرض کرنا مناسب ہو گا کہ ایک صاحب مسلسل بد ہضمی دماغی پریشان، سینے کی جکڑن کے مستقل
مریضں رہتے تھے قدرتی طور پر ان کا خاندانی درزی مرگیا وہ ایک کہنہ مشق اور تجربہ کار درزی کے پاس گئے جب انہوں نے قمیص کے کالر کی بات بتائی تو درزی نے کہا کہ صاحب اس طرح تنگ کالر والی قمیض پہن کر آپ دماغی اور معدے کے مریض بن سکتے ہیں۔ ان صاحب کو فورا احساس ہوا اور انہوں نے گلا رکھوانا چھوڑ دیا اور بالکل ٹھیک
ہو گے
ایک تبصرہ شائع کریں